میرا نام محمد اسحاق ہے اور میں لندن کے مضافات میں ایک مسجد کا امام ہوں۔سالوں پہلے کی بات ہے میں پاکستان میں روزگار کے لئے دھکے کھا رہا تھا کہ اچانک ایک صاحب نے مجھے لندن جانے کاراستہ دکھایا۔ دراصل ہوا یہ کہ میں کراچی میں ایک صاحب کے بچوں کو گھر پر قرآن پاک پڑھانے جاتا تھا۔ یہ برطانوی شہری تھے اور لندن میں ان کے کافی رشتہ دار مو جود تھے۔ انہیں وہاں اپنی مسجد کے لئے ایک امام کی ضرورت پڑی تو اپنے بھائی سے کہا کہ پاکستان سے کوئی اچھا سا عالم دین بھیج دیں اور اس طرح میری لاٹری کھل گئی اور میں لندن پہنچ گیا۔
مجھے روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا پڑتا تھا۔
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ اب جو میں بتانے جا رہا ہوں وہ بلکل سچا واقعہ ہے اور میرے ساتھ پیش آیا۔
ایک مرتبہ میں بس پر سوار ہوا، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گیا۔ سفید فام خاتون ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
میں سوچ میں پڑ گیا، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس اترتے ہوئے خاتون ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں ویسے بھی میں غریب ہوں اور ان پیسوںپر میرا حق ہے۔
بس میرے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ نہیں یہ رقم میں نہیں رکھ سکتا اور یہ میرے لئے اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ میں حرام کھاتا ہوں یا نہیں۔
میں نے اُترنے سے پہلے خاتون ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
خاتون ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کو دیکھ رہی ہوں اور کچھ لوگوں سے آپ کے بارے میں پوچھا بھی تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں ہی اس علاقے کی مسجد کا نیا امام ہوں۔ اس پر وہ بولی کہ میں آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں
معلومات لینا چاہ رہی تھی کیا آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہو گا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں اور یہ جان سکوں کہ تم کتنے ایماندار ہو۔ اگر تم بیس پنس کے معاملے میں بے ایمانی کرتے تو پھر مذہب اور عقیدے اور خدا کے بارے میں تم پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ تم ایماندار ہو اور میں تم سے روحانی رہنمائی لے سکتی ہوں۔ میں نے اسے جیسے تیسے کر کے مسجد آنے کا وقت بتایا اور بس سے نیچے اتر آیا۔
جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، مجھے ایسے لگا جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔ اگر اس ایک لمحے میں مجھے پر شیطان غالب آجاتا تو آج ایک سفید فام انگریز خاتون میرےفعل کو اسلام سے جوڑ کر اسے ہی غلط سمجھ بیٹھتی۔ مجھے ایسے لگا کہ شاید میں مر گیا تھا اور جہنم کے دروازے سے اچانک ہی مجھے واپس بلا لیا گیا ہو۔
جب میں مسجد پہنچا تو شدید سردی میں بھی پسینے سے شرابور تھا اور مسجد کے ساتھیوں نے میری پیشانی سے پسینہ بہتے دیکھ خیریت پوچھی مگرمیں انہیں کیا بتاتا۔ بہر حال بعد میں وہ انگریز خاتون ڈرائیور میرے پاس آئی اور کئ بار آئی۔ کچھ ماہ بعد اس نے اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ پھر میں نے اسے نکاح کی اہمیت کے بارے میں بتایا تو اس نے براہ راست مجھ سے سوال کرلیا۔ کیا تم مجھ سے نکاح کرو گے؟ میں اسے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ کس طرح حضرت خدیجہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود نکاح کا پیغام بھیجا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول بھی کرلیا تھا۔ یہ واقعہ میں نے اسے عورتوں کی اسلام میں آزادی اور حقوق کے حوالے سےسنایا تھا اور اب وہ خود میرے سامنے شادی کی پیشکش کررہی تھی۔ گو کہ میں شادی شدہ تھا اور میری بیوی بھی میرے ساتھ ہی لندن میں رہتی تھی مگر میں نے اسے سوچنے کی مہلت دینے کو کہا ۔ میں نے اپنی بیوی اور ساتھیوں سے مشورہ کیا تو سب نے یہی کہا کہ مجھے یہ پیشکش اسلام کے لئے قبول کرلینی چاہیے اور میں نے اگلے دن ایسا ہی کیا۔ یہ تقریبا دس سال قبل کی بات ہے اور اب تو میرے اس سفید فام نو مسلم بیوی سے چار بچے بھی ہیں۔ اگر کبھی آپ لندن میں بس سے سفر کریں اور اس کی سفید فام خاتون ڈرائیور کو اچھی طرح اسکارف اوڑھے دیکھیں تو سمجھ جائے گا کہ وہ میری ہی بیوی ہے۔ ہم دونوں کی ہی عمر اب چالیس سال ہو چکی ہے اور بہت جلد میری بیوی بس ڈرائیور کی ملازمت چھوڑ کر اسلامی کتب کی ایک دکان کھولنے والی ہے۔ اگر آپ لندن میں رہتے ہیں تو ہماری دکان پر ضرور آئے گا
No comments:
Post a Comment